Pages

Friday, August 21, 2015

"Ai samandar" in Shabkhoon

We saw in a previous article that in 1968 Shamsur Rahman Faruqi, the young editor of the new Urdu literary journal Shabkhoon, wrote to Rashed for the first time to solicit his poetry for the journal. Sean Pue has provided scans of the first poem that Rashed sent to Faruqi, "Ai samandar," published in the opening pages of the September 1969 issue of Shabkhoon (pp. 3-4):


This version of "Ai samandar" differs significantly from the version finally published in Rashed's last book of poetry, Gumān kā mumkin (1976), in its spacing, its line breaks, its punctuation, its wording and the order of its stanzas. On the other hand, it is more similar to a draft of "Ai samandar" that Rashed wrote in pencil, which exists in the N. M. Rashed Archive. The pencil draft is more similar in its format to the 1976 version, but retains some passages that existed in this 1969 version.

A transcription of the 1969 poem is below. The eighth line, "—jis pih jal jāte haiñ hāth—" is found neither in the pencil draft nor in the 1976 version.

اے سمندر! پیکر شب، جسم، آوازیں
رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو
پتھروں پر سے گذرتے، رقص کی خاطر
 اذاں دیتے گئے،
اورمیں مرتے درختوں میں نہاں سنتا رہا۔۔۔۔
ان درختوں میں مرا اک ہاتھ
عہد رفتہ کے سینے پہ ہے
۔۔۔جس پہ جل جاتے ہیں ہاتھ ۔۔۔
دوسرا، اک شہر آئندہ میں ہے جویائے راہ
شہر۔۔۔جس میں آرزو کی مے انڈیلی جائے گی
زندگی سے رنگ کھیلا جائے گا۔

اے سمندر!
چاند کی ٹوٹی ہوئی کشتی کے تختے
شب کی طغیانی کی باہوں پر رواں

اے سمندر! آنے والے دن کو یہ تشویش ہے
رات کا کابوس جو دن کے نکلتے ہی ہوا ہو جائے گا
کون دے گا اس کے ژولیدہ سوالوں کاجواب؟
کس کرن کی نوک؟
کن پھولوں کا خواب؟

اے سمندر!
میں گنوں گا دانہ دانہ تیرے آنسو
جن میں اک زخار بے ہستی کا شور۔

اے سمندر! رات اس ساحل پہ غراتے رہے
غم زدہ لمحات کے ترسے ہوئے کتوں کی نظریں
چاند پرپڑتی رہیں
اُن کی عو عو چاند دورتک لپکی رہی

اے سمندر! میں گنوں گا دانہ دانہ تیرے آنسو
جن میں آنے والا جشن وصل نا آسودہ ہے
جن میں فردائے عروسی کے لئے کرنوں کے ہار
شہر آئندہ کی روح بے زماں چنتی رہی
میں ہی دوں گا، اے سمندر! جشن میں دعوت تجھے
استراحت تیری لہروں کے سوا کس شے میں ہے؟

اے سمندر! ابر کے اوراقِ کہنہ
بازوئے دیرینۂ امید پر اڑتے ہوئے
دورسے لائے ہیں کیسی داستاں!
شہرآئندہ کے دست وپا کے رنگ
۔۔۔ جیسے جاں دینے پہ سب آمادہ ہوں ۔۔۔
دست و پا میں جاگ اٹھے
راگ کے مانند، میں بھی دست و پا میں جاگ اٹھا

اے سمندر!
کل کے جشن نو کی موج
شہر آئندہ کی بینائی کی حد تک آ گئی
اب گھروں سے ۔۔۔
جن میں راندہ روز و شب کی چاردیواری نہیں۔۔۔
مرد و زن نکلیں گے ہاتھوں میں اٹھائے برگ و بار
جن کو چھو لینے سے لوٹ آئے گی روگرداں بہار

اے سمندر!
Keywords: #Shamsur_Rahman_Faruqi, #Shabkhoon, #Guman_ka_mumkin, #publication_history, #Ai_samandar

No comments:

Post a Comment